اکتوبر کا مہینہ ماضی میں ہمیشہ پاکستان پر بھاری کیوں رہا؟
(ڈیلی پوائنٹ)لاہوراکتوبر کا مہینہ ہمیشہ سے پاکستان اور عوام پر بھاری رہا ہےاس مہینہ میں بہت سے اہم واقعات ہوتے رہے ہیں جس نے نہ صرف ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کیا بلکہ پوری دنیا میں ہماری رسوائی بھی ہوتی رہی۔یہ واقعات کیا تھے اس سب کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اکتوبر کے مہینے کا آغاز 1947 سے کرتے ہیں27اکتوبرکو جب انڈیا کے ہوائی جہاز کشمیر کی سرزمین پر اتر کر جنت نظیر پر قابض ہوگئےاور مہاراجہ نے ایک سازش کے ذریعے پاکستان کے بہت سے علاقے بھارت میں شامل کروا کر ایسے مسائل پیدا کردیے جو آج تک حل نہ ہو سکے۔
اس کے بعد پاکستان کے ساتھ 16 اکتوبر کو ایسی چال چلی گئی قائد اعظم کے بہترین ساتھی اور ملک کے محسن نواب زادہ لیاقت علی خان کو لیاقت آباد میں ایک جلسے کے دوران گولی مار کر مروادیا گیا ۔جب قائد ملت جلسے گاہ کے پنڈال میں پہنچے اکبر نامی شخص نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ملک کے پہلے وزیر اعظم شہید ہوگئے اور آج تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔
17 اکتوبر کو ملک کے دوسرے وزیراعظم جناب خواجہ ناظم الدین نے حلف لیا اور گورنر جرنل سے استعفی دے دیا۔اسی تاریخ کو جناب ملک غلام محمد نے تیسرے گورنر جرنل کا حلف اٹھایا ۔
7اکتوبر 1954 کا دن پاکستان کے لیے بہتر رہا جب چودھری ظفر اللہ خاں کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا ممبر بنایا گیا جو ملک کے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔
مگر اسی ماہ 24 اکتوبر 1954 کو پاکستان میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہےیعنی ملک کی جمہوریت پر پہلی کاری ضرب لگائی گئی ملک غلام محمد نے 58 ٹوبی کا استعمال کرتے ہوئے محمد علی بوگرہ کی حکومت کو ختم کر دیا گیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دی۔ اگلے برس یعنی 1955 میں غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کے باعث اکتوبر میں استعفی دے دیا اور 6 اکتوبر کو ان کا استعفی منظور ہو گیا جس کے نتیجے میں مرزا سکندر نے گورنر جرنل کی نشست پر قبضہ کر کے مزید ملک میں سازشوں کا ایک ایسا جال بچھایا جس سے ملک پاکستان مزید کمزور ہوتا چلا گیا ۔ یکم اکتوبر 1956 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں الیکشن کے حوالے سے ایک بِل پیش کیا گیا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں الیکشن کا تذکرہ کیا گیا مگر افسوس اس کی نوبت ہی نہ آئی
18 اکتوبر 1957 کو حسین شہید سہروردی سے استعفی لیا گیا اور 18 اکتوبر کو ابراہیم اسماعیل کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ اور ایوب خان کی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں ملک میں پہلے مارشل لاء کا تذکرہ کیا گیا ہے ملک میں مارشل لاء کیوں لگایا گیا ۔7 اکتوبر 1958 کو گورنر جرنل اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لاء یعنی فوجی حکومت پاکستان میں قائم کر دیاسمبلیاں تحلیل کر دی گئی اور فیروز خان نون کو گھر بھیج دیا گیا ۔
سکندر مرزا نے جو چالیں سیاست دانوں پر چلائی تھی وہی چالیں بعد میں ایوب خان نے چلی ابھی مار شل لاء لگے ملک میں 20 دن ہی ہوئے تھے کہ 27 اکتوبر 1958 کی رات اسکندر مرزا کو استعفی دینے پر مجبور کیا گیا ۔اس سے اگلے سال یعنی 26اکتوبر 1959 کو ملک میں فوجی پالیسیاں متعارف کروائی گئی جمہوریت کے مقابلے پر۔
22 اکتوبر 1964 کو ملک کے دوسرے وزیر اعظم جناب خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ میں انتقال کرگئے۔
28 اکتوبر 1972 کو ملک میں ایک اور اچھا دن آیا جب ذولفقار علی بھٹو نے کراچی میں نیو کلیر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔
16 اکتوبر 1979 کو ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کرنے والے ضیا الحق نے پریس اور سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد کی ۔6 اکتوبر 1988 کو ملک میں الیکشن ہوئے 8سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد بنایا جس کا نام آئی جے آئی رکھا جو بظاہر پی پی پی کے خلاف تھا مگر اس کے باوجود بے نظیر نے زیادہ سیٹیں لی اور نومبر میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔
24 اکتوبر 1990 کو ایک بار پھر ملک میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
6 اکتوبر 1993 کو ملک میں ایک بار پھر سے الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور بے نظیر 86 نشستیں لے کر پھر سے 19 اکتوبر کو ملک کی وزیر اعظم بن گئی۔
وقت آیا 12 اکتوبر 1999 کا جب جرنل پرویز مشرف نے ملک میں چوتھا مارشل لاء لگایا اور نواز شریف کا تختہ الٹ دیا۔
پرویز مشرف نے اپنی سربراہی میں اکتوبر 2002 میں الیکشن کروائے اور مسلم لیگ ق کو جتوا یا گیا ۔
اکتوبر میں ہی فضل الرحمن نے ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کی بنیاد رکھی ۔
8 اکتوبر 2005 میں ملک پاکستان پر ایک بڑا سانحہ آیا کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ایک زبردست زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں تقریبا 80ہزار لوگ مارے گئے لاکھوں زخمی اور اپنے گھروں سے محروم ہو گئے۔
18 اکتوبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو ایک پھر سے پاکستان واپس آئی۔
اکتوبر 2010 میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے لندن میں آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی۔
کہا جاتا ہے کہ 30 اکتوبر 2011 کو جب عمران خان نے لاہور مینار پاکستان میں جلسہ کیا تو ان کی سیاست پروان چڑھی اور وہ عوام کی نظروں میں آئے۔
موجودہ دور میں نواز شریف بھی ان دنوں ملک سے باہر ہیں کہا جارہا ہے کہ 21 اکتوبر
2023 کو ان کی واپسی ہو رہی ہے۔ اب یہ مہینہ بھی نواز شریف کی آمد کی وجہ سے اہم ہوتا جا رہا ہے آیا نواز شریف آتے ہی گھر جائے گے یا جیل یہ تو 21 اکتوبر کا دن ہی بتائے گا۔