22 لاہور(ڈیلی پوائنٹ)جمادی الثانی سیّد الصحابہ، امیر المومنین، یار غار مصطفیؐ، خلیفہ اوّل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا یوم وفات ہے۔
ایک بار نبیﷺ کی محفل میں کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول جنت کے 8 دروازے ہیں جو مسلمان جنت میں جائے گا 1 دروازے سے ہی داخل ہوگا اس کائنات میں کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہو گا جس کو جنت کے 8 دروازوں سے آواز آئے گی ہم سے گزر کر جنت میں داخل ہو تو حضورﷺ نے جواب دیا ہاں! ایک ایسا خوش نصیب ہے اور وہ صرف ابو بکر صدیق ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا تھا لوگوں میں نے سب کا حق ادا کر دیا مگر ابو بکر کا حق ادا نہیں کر سکتا کل قیامت کے روز اللہ ہی ابو بکر کا حق ادا کریں گا۔
امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام نامی اسم گرامی عبداﷲ ہے، ابوبکر کنیت ہے، صدیق لقب ہے۔سیدنا صدیق اکبرؓ کے والد گرامی کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ محترمہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر ہے۔
بہ حیثیت تاجر سیدنا صدیق اکبرؓ کی راست بازی، دیانت اور امانت کا چرچا مکہ المکرمہ میں ہر عام و خاص کی زبان پر تھا، اہل مکہ ان کے تجربے، علم اور حسن اخلاق کی وجہ سے انہیں قابل تکریم شخصیت کے طور پر دیکھتے تھے۔
جاہلیت کے ایام میں خون بہا کا مال آپؓ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا، اگر کسی وجہ سے یہ مال کسی اور کے پاس جمع ہوتا تو قریش اسے تسلیم نہیں کرتے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اسلام لانے سے قبل بھی نفرت انگیز برائیوں سے محفوظ تھے۔ چوری، زنا، جھوٹ، بددیانتی، کینہ پروری، قتل و غارت گری اور شراب کے کبھی قریب تک نہیں گئے۔
حضور ﷺ سے بچپن ہی میں انہیں خاص انس، محبت اور خلوص تھا۔ اور آپ ﷺ کے حلقۂ احباب میں شمار ہوتے تھے۔ اکثر تجارتی اسفار میں ہم سفر رہے۔
امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے مخفی طور پر اپنے حلقۂ احباب اور راز دار لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو بزرگ مردوں میں سب سے اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے آزاد، بالغ، مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جس کسی پر بھی اسلام پیش کیا تو وہ اسلام سے کچھ ضرور جھجھکا مگر ابوبکرؓ کہ اس نے اسلام قبول کرنے میں توقف نہیں کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی دین اسلام و کتاب وحی کی نشر و اشاعت شروع فرما دی۔ آپؓ کی دعوت پر حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہم اجمعین مشرف بہ اسلام ہوئے۔
آپؓ رقیق القلب شخصیت تھے، قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ جناب نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد کفار کی طرف سے ظلم و جبر کے تمام ہی حربے آزمانے کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت ابوبکر صدیقؓ ان مشکل ترین اور کھٹن حالات میں جان، مال، رائے اور جدوجہد غرض ہر حیثیت سے آپ ﷺ کے دست و بازو بن کر میدان میں ڈٹے رہے۔
حضور ﷺ روزانہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور تبلیغ دین پر مشاورت کرتے۔ قبائل عرب اور عوامی اجتماعات میں دعوت و تبلیغ کے لیے جاتے تو بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہم راہ رہتے تھے۔ مکہ میں ابتدائی طور پر جن لوگوں نے حضور ﷺ کی دعوت پر ایمان لایا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور باندیوں کی تھی، جو اپنے مشرکین آقاؤں کے ظلم و جبر میں بُری طرح گرفتار تھے اور انہیں ہر طرح کے ظلم و ستم کا سامنا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان مظلوموں کو ان کے جابر آقاؤں سے خرید کر آزاد کرایا۔ کفار مکہ جب کبھی حضور ﷺ پر حملہ کرتے تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے اور بھرپور دفاع کرتے، اور خود کو خطرات میں ڈال کر بھی حضور ﷺ پہ آنچ نہ آنے دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دختر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔
ابتداء میں تو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کی قلیل جماعت کو اہمیت ہی نہیں دی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد تو دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور یہ جماعت روز بہ روز پھلتی پھولتی جارہی ہے تو انہوں نے سختی سے اسلام کی اشاعت کی اس تحریک کا سدباب کرنا چاہا اور اسلام لانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کیے تو آپ ﷺ نے مدینۃ المنورۃ کی طرف مسلمانوں کے لیے ہجرت کا فیصلہ فرمایا۔
اس وقت تک مدینہ کی سرزمین اسلام کے نور سے منور ہو چکی تھی، اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو نہایت محبت و خلوص سے دامن گیر کر رہی تھی۔ حضور ﷺ نے مدینہ کو مسلمانوں کی منزل قرار دیا اور ہجرت کی تیاری شروع کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ اکثر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔
ایک روز اچانک تشریف لائے اور فرمایا کہ کوئی اور ہو گھر میں تو اسے ہٹا دو، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ گھر والوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، یہ سن کر آپ ﷺ اندر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہوگیا ہے تیاری کرو آپ نے ہم راہ چلنا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ تو اسی دن کے انتظار میں بیٹھے تھے فوری تیار ہوگئے۔
سفر ہجرت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے انتہائی جاں نثاری سے پیغمبر انقلاب حضرت محمد ﷺ کا ساتھ نبھایا۔ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو مسلمانوں کی بے بسی اور مظلومیت کا دور ختم ہوچکا تھا۔ اور آزادی کے ساتھ دین اسلام کی نشر و اشاعت کا وقت آگیا تھا۔ لیکن عرب کی جنگ جُو قوم اسلام کی حقانیت کو بہ زور شمشیر دبانا چاہتی تھی۔
اس لیے اس نے ہمیشہ علم بردار اسلام کو اپنی جنگ جوئی سے منبر واعظ ہدایت کو چھوڑ کر میدان رزم میں آنے کے لیے مجبور کیا۔ چناں چہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سے فتح مکہ تک خون ریز جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اور ان سب لڑائیوں میں صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ایک مشیر و وزیر باتدبیر اور جاں باز سپاہی کی طرح ہمیشہ آپ ﷺ کے ہم راہ رہے۔ آپ ﷺ کے زمانہ میں ہی امیر حج بننے کی سعادت بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حاصل ہوئی۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ سب سے زیادہ سخی تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے اپنا سب کچھ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نچھاور کردیا۔
غزوہ تبوک میں آپ ﷺ نے کفار کے مقابلے کے لیے چندے کی اپیل کی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا سارا مال حضور ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سخاوت، صداقت اور امانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ نبی ﷺ کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔
آپ ﷺ کی اس جہان فانی سے رخصتی کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بالاتفاق آپؓ کو حضور ﷺ کا جانشین اور اپنا خلیفہ بنایا۔ آپؓ کی خلافت کا آغاز بہت مشکلات میں ہُوا۔ متعدد باطل قوتیں اٹھ کھڑی ہوئیں، لیکن آپ رضی اﷲ عنہ نے ان تمام مسائل کو بڑی حکمت و تدبر سے نبھایا۔ آپ رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کے بہت سے اہم واقعات ہیں۔
جن میں مرتدین و جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین زکوۃ کی سرکوبی اور لشکر اسامہؓ کی روانگی سمیت دیگر اہم واقعات ہیں۔ اس کٹھن دور میں کہ جب بعض اپنے احباب بھی اختلاف رائے رکھتے تھے کہ ایک ہی وقت میں متعدد محاذ کھولنا مسلمانوں کے لیے مشکلات کا باعث ہیں، لیکن خلیفہ اوّلؓ نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے جرأت و بے باکی کے ساتھ دشمن قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت دو سال چھے ماہ دس دن رہی۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے مختصر دور خلافت میں ان تمام حالات سے نمٹنے کے بعد کئی علاقے بھی فتح کیے۔
جن میں جسرہ، انبالہ اور شام کے کئی علاقے شامل ہیں۔ بالآخر آپ رضی اﷲ عنہ نے چند دن بیمار رہنے کے بعد 22 جمادی الثانی کو تریسٹھ برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اور پیغمبر اکرم ﷺ کے پہلو میں مدفون ہیں۔
مسلم امہ کے مقتدر طبقے کو چاہیے کہ وہ بحرانوں سے نکلنے کے لیے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے طرز حکم رانی کو اپنائیں۔