اسلام آباد (ڈیلی پوائنٹ) بلوچ طلباء جبری گمشدگیوں کا کیس میں معروف اینکر اور سینئر صحافی حامد میر نے بلوچ طلباء کی آواز بن گئے ہیں. گذشتہ کئی دنوں سے بلوچ عوام اسلام آباد میں پر امن احتجاج کر رہی تھی جس پر اسلام آباد کی پولیس نے نہ صرف ان بلوچ عوام پر بدترین تشدد کیا بلکہ ان کو زبردستی گرفتار بھی کیا ۔ احتجاج کے دوران حامد میر موقع پر پہنچے پولیس جن بلوچ مرد و خواتین کو گرفتار کر رہی تھی پولیس کو گرفتار کرنے سے منع کیا جس کے دوران پولیس اہلکار کے ایک افسر سے بدکلامی بھی ہوئی۔ حامد میر نے کہا تم مجھے گرفتار کرو میں ان بلوچوں کے لیے یہاں بیٹھا ہوں کیا یہ سب بچیاں بچے دہشت گرد ہیں جن کو گرفتار کر ہے ہو۔
اسلام آباد پولیس نے دوپہر کو ہائی کورٹ میں کہا سب خواتین کو رہا کر دیا ہے لیکن ان خواتین کو آج رات زبردستی گاڑیوں میں بٹھا کر کوئٹہ لیجایا جا رہا ہے وفاقی وزرا سے بھی غلط پریس کانفرنس کرائی گئی pic.twitter.com/40yfsJT6ih
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) December 21, 2023
آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلباء کیس کے حوالے سے سماعت ہوئی جس میں حامد میر نے کھل کر اپنا موقف پیش کیا انھوں نے کہا کہ کل آئی جی پولیس اور نگراں وفاقی وزیر نے کہا ہم نے کسی کو ہراست میں نہیں لیا جس کو لیا ان کو چھوڑ دیا ہےجبکہ خواتین ان کے پاس ہیں۔ حامد میر نے کہا پولیس آفسر نے مجھ سے بدتمیزی بھی کی جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا حامد میر سینئر صحافی ہیں صحافیوں کے ساتھ یہ برا سلوک قابل قبول نہیں جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر میرے کسی افسر نے بدتمیزی کی تو میں معافی مانگتا ہوں۔
سینئر صحافی حامد میر پہلے بھی کئی مواقع پر بلوچوں کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں ان کے حق میں بات کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچ خواتین ان دنوں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے احتجاج کرنے اسلام آباد آئی تھی جن کے ساتھ پولیس نے بدترین سلوک کیاہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے بھی پولیس کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہی ہے مگر ان کا رویہ بھی قابل افسوس ہے۔