(ڈیلی پوائنٹ)توبہ و استغفار کے ذریعے مغفرت کا سامان کریں .
رمضان المبارک مغفرت و بخشش کا عظیم الشان مہینہ ہے اور اس مقدس اور با برکت ماہ کا پہلا عشرہ رحمت ختم ہوچکا ہے اورآج سے دوسرا عشرہ شروع ہو رہا ہے جو مغفرت کا عشرہ کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مہینے کی برکت کی وجہ سے ہم سے راضی اور خوش ہوکر ہماری مغفرت و بخشش کردے۔ بلاشبہ رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں غفورالرحیم کی جانب سے مغفرت و بخشش کا دریا بہایا جاتا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اہتمام کے ساتھ روزے رکھیں، اپنے گناہوں، اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں کو یاد کرکے سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔
اگر اس عظیم الشان مہینہ کو پالینے کے بعد بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور جہنم سے خلاصی پانے سے محروم رہ گیا تو وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب شمار ہوگا۔ اس ماہِ مبارک کو اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے اورتوبہ و استغفار تو ویسے بھی اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہیں، چنانچہ جس شخص کی توبہ قبول ہوگئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیاتو گویا وہ رمضان المبارک کے فضائل وبرکات سے مالامال ہوگیا۔ خود آنحضورؐ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں انتہائی کثرت اور اہتمام سے توبہ و استغفار فرماتے تھے۔ دوسرے عشرے کی دعا : ’’میں اللہ تعالیٰ سے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں (جو میرا پروردگار ہے) اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ ‘‘
ویسے تو اِس مہینے کے ہر لمحے میں استغفارکرنا موجب ثواب اور برکت ہے لیکن سحری کے وقت استغفار کرنا بہت زیادہ اجر اور ثواب رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’متقی لوگ باغات اور چشموں میں اس طرح رہیں گے کہ ان کا پروردگار انہیں جو کچھ دے گا، اسے وصول کر رہے ہوں گے۔ وہ لوگ اس سے پہلے ہی نیک عمل کرنے والے تھے اورپھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں استغفار کرتے تھے۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ: ’’تین لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت۔ دوسری عادل بادشاہ (یعنی عدل و انصاف کرنے والے حاکم) کی، اور تیسری مظلوم کی۔ ‘‘(جامع ترمذی) لہٰذا جتنا ممکن ہوسکے جانے انجانے میں کئے گئے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہو کر معافی مانگنی چاہئے کیونکہ وہ ذات بہت عظیم ہے۔ معاف کرنے پر آئے تو بڑے سے بڑے گناہ گار کو بھی معاف کر دیتی ہے اور اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ ہر رات تہائی حصے کے بعد فرماتا ہے: ’’کوئی ہے جو مجھ سے رحمت مانگے، کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے، کوئی ہے جو مجھ سے دْعا مانگے تاکہ میں اپنے بندے کی حاجت پوری کروں ؟‘‘ (صحیح بخاری)
رمضان المبارک کا یہ درمیانی عشرہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے اطاعت گزار بندوں کے لئے بڑے انعام و اکرام اور غنیمت کی چیز ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس مبارک مہینے کا درمیانی حصہ مغفرت کا ہے۔ ‘‘ آپؐ کے اس فرمان کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے تقاضے اور اُس کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ روزے رکھیں، اپنے گناہوں، اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں کو یاد کرکے سچے دل سے توبہ کریں اور استغفار کی کثرت کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے پیغمبرؐ! میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہیں وہ رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخشنے والا مہربان ہے اور سچے دل کے ساتھ توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اسکے احکام تسلیم کرو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور کوئی تمہاری مدد نہ کرسکے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار شخص بھی جب سچے دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے اور دور رہنے کا عہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی مغفرت و بخشش کردی جاتی ہے۔
احادیث ِمبارکہ میں بھی کثرتِ استغفار کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک عمل سے بھی اُمّت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا۔ ارشاد فرمایا، ’’اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، بے شک مَیں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ ‘‘(صحیح مسلم)۔ ابنِ ماجہ کی حدیث ہے کہ’’ جو شخص استغفار کو خود پر لازم کر لے، ( یعنی کثرت سے استغفار کرے) تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر رنج و غم سے نجات دیتا ہے اور اُس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اُسے ایسی جگہ سے روزی عطا کرتا ہے، جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘ (سنن ابی داؤد)