اسلام آباد(ڈیلی پوائنٹ) سگریٹ انڈسٹری کے ٹیکس پالیسی پر اثرانداز ہونے کی وجہ سے گزشتہ 7 سال میں 567 ارب روپے کی ممکنہ آمدنی کا قومی خزانے کو نقصان ہوا ہے اور ملک کے صحت کے نظام پر اضافی بوجھ بھی پڑا ہے ۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) نے ایف بی آر کے اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کے بعد رپورٹ جاری کر دی ہے۔
عالمی بینک نے پاکستان میں تمباکو کے استعمال کا جائزہ، تمباکو کنٹرول قانون سازی، اور ٹیکسیشن کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مالی سال 2016-2017 میں حکومتی محصولات میں کمی کی منصوبہ بندی طاقتور سگریٹ انڈسٹری نے کی تھی۔
اس مطالعہ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثر و رسوخ اور ایکسائز ڈیوٹی ڈھانچے کو متعارف کرانے پر توجہ دلائی گئی ہے کہ صحت عامہ کو ترجیح دیتے ہوئے آمدنی کے سلسلے کی حفاظت کے لیے ٹیکس کی پالیسیوں کا محتاط از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن صحت عامہ کے لیے سگریٹ کمپنیوں کے ذاتی مفادات سے تمباکو ٹیکس کی پالیسیوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکس لگانے اور قیمتوں کو صحت عامہ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے واضح حکمت عملی کا فقدان ہے۔
نیب، سینیٹ خصوصی کمیٹی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ریونیو نے بھی کثیر القومی سگریٹ انڈسٹری کو درپیش چیلنجوں کی توثیق کی ہے۔ پاکستان میں سگریٹ صنعت پر دو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہے جو گھریلو برانڈز فروخت کرتی ہیں۔