بھارت (ڈیلی پوائنٹ)معروف شاعر منور رانا 71 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ وہ عرصہ دراز سے بیمار تھے۔ منور رانا گردے اور دل سے متعلق کئی مسائل کے علاوہ گلے کے کینسر کا شکار تھے۔
گزشتہ سال بھی منور رانا کو طبیعت کی خرابی کے باعث لکھنؤ کے اپولو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کی حالت اتنی بگڑ گئی تھی کہ انہیں وینٹی لیٹر پررکھا گیا تھا۔
منور رانا کے خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی تدفین پیر کے روز کی جائے گی۔ انہوں نے پسماندگان میں بیوہ، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔
منور رانا کی غزلوں میں زلف یار کی نہیں بلکہ ماں کے آنچل کی خوشبو ہے۔’ماں‘ کے موضوع پر ان کی شاعری زبان زد عام تھی ۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی .منور رانا کو ان کی نظم ’شہدبا‘ کے لیے 2014 میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
ماں کے موضوع کے بعد منور رانا کی شہرت کی دوسری وجہ ان کا لکھا گیا ’مہاجر نامہ تھا‘.دراصل مہاجر نامہ کی شروعات اپریل 2008 میں منور رانا کے پاکستان دورہ سے ہی ہوگئی تھی۔
کراچی میں ایک مشاعرہ کے دوران ایک شخص نے دو دن بعد حیدرآباد میں ہونے والے مشاعرہ میں منوررانا سے شرکت کرنے کی التجا کی۔ گھٹنوں کی پریشانی کے سبب رانا صاحب نے انکار کردیا۔ وہ ضد پر اڑ گئے اور کہہ بیٹھے کہ یہاں جو نذرانہ آپ کو مل رہا ہے ہم آپ کو اس سے دو گنا دیں گے۔ بس یہی بات منور رانا کو ناگوار گزری اور اسی ناگواری نے اس وقت مشاعرہ میں بیٹھے ہی بیٹھے کچھ شعر لکھوالیے۔
اپنی باری آنے پر انہوں نے وہی تازہ اشعار ان صاحب کی نذر بھی کیے اور یہیں سے مہاجر نامہ میں پہلا قدم بڑھایا بعدازں ہندوستان جاکر انہوں نامہ کتاب لکھی جس میں 50 اشعار تھے ۔