bacho ki tarbiat aysy krt

بچوں کی تربیت اس طرح کریں

لاہور(ڈیلی پوائنٹ)بچوں کی تربیت سب کا بنیادی مسئلہ ہے۔بچے بات نہیں سنتے، کہا نہیں مانتے، جانے موبائل میں کیا کیا دیکھتے ہیں، پلٹ کر جواب دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج کل اکثر مائیں یہی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ روایتی طریقوں سے ان کو نصیحت کرنا، روکنا ٹوکنا، ڈانٹنا اور سزا دینا، ان تمام کا وقت اب گزر چکا ہے۔ اب بدلتے زمانے کے ساتھ تربیت کا انداز بھی بدلنا ہوگا۔
Try to be a good listener to your children
بچوں کے اچھے سامع بنیں:.
آپ اپنے آس پاس کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ لوگ بچوں کے رویوں کی شکایت کرتے ہیں ۔ بچے بات نہیں سنتے، کہا نہیں مانتے، جانے موبائل میں کیا کیا دیکھتے ہیں ، پلٹ کر جواب دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں ۔ ان کا تدارک کیسے کرنا چاہئے؟ روایتی طریقوں سے ان کو نصیحت کرنا، سمجھانا، روکنا ٹوکنا، ڈانٹنا اور سزا دینا، ان تمام کا وقت اب گزر چکا ہے۔ یہ سارے روایتی طریقے بچوں پر بے اثر ہیں بلکہ بعض دفعہ ان کو مزید باغی بناتے ہیں ۔ ایسے میں سرپرستوں کی پریشانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
درج بالا مسائل اس قدر تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ ہم نہ تو ان پر قدغن لگا پا رہے ہیں نہ ہی یہ ہماری گرفت میں آرہے ہیں بلکہ ایک پانی کے ریلے کی طرح بہت کچھ بہہ جا نے والی کیفیت سی بن گئی ہے۔ بچوں کے مستقبل کی خرابی تو ہے ہی بڑوں کی عزت و ادب ان کی بات ماننا نہ سہی سننے کی قوت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ ایسے میں ہر کسی کی یہ آرزو ہے کہ کوئی ایسا علاج مل جائے کہ یہ مسائل جھٹ سے ختم ہو جائیں ۔ کوئی جادو کی چھڑی ہاتھ آ جائے۔ کوئی دوا مل جائے جو سب کچھ ٹھیک کر دے جو کہ ناممکن ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ سرپرستوں کو اس سلسلے میں پہلے اپنا تجزیہ کرنا چاہئے۔ جانئے چند توجہ طلب
(۱) پوری ایمانداری سے اس بات کا اعتراف کریں کہ آپ نے کہاں کہاں کوتاہی کی ہے۔ اس پہلے قدم پر اگر آپ نے دیانتداری سے کام لیا تو آگے کے مراحل آسان ہوں گے۔ ہر کسی کی ذاتی کہانی دوسرے سے الگ ہے۔ اپنا مقابلہ کسی اور کے حالات اور عادات و اطوار سے نہ کریں۔
(2)اطاعت آپ دراصل اپنے بچوں سے کس طرح کی فرماں برداری کی توقع کرتے ہیں ؟ ان کو کس قدر آزادی دینے کے حق میں ہیں۔ اس کا تجزیہ بھی کر لیں۔
(3)معیوب بات:. کون سی با تیں آپ کی نظر میں معیوب ہیں کن کے لئے آپ میں کشادگی ہے۔ اس کا اندازہ کر لیں ۔ اس عمل سے آپ کا آدھا مسئلہ حل ہو چکا ہوگا۔
(4) اپنے دور سے بچوں کے آج کا موازنہ نہ کریں :۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر ہم ان کی عمر میں ہوتے تو ہم کیسے ہوتے اس تصور کو اپنا مددگار بنایئے۔
(5) اپنے بچوں سے بات کرنے کی شروعات آپ خود کریں: ۔ روزانہ ایک وقت طے کریں۔ ہر طرح کے کاموں سے خود کو آزاد کریں۔ اپنا فون بند کریں اور یوں ہی عام سی باتیں شروع کریں تاکہ بچے بھی ان باتوں میں شامل رہیں۔ اس گفتگو میں کوئی نصیحت نہ ہو۔ تنقید، اصلاح یا ہدایت سے پاک یہ سب ایک دوسرے سے رابطہ اور رشتہ مضبوط کرنے والی دوستانہ گفتگو ہو۔
(6) بہترین سامع:. آپ کی کوشش یہ ہو کہ آپ اپنے بچوں کے اچھے سامع بنیں۔
(7) بچوں کی باتوں میں دھیان دیں:. بچوں کی تعلیمی اور مشغلہ جاتی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔ ان کو سراہیں۔
(8) اہل خانہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں”:۔ ایسی کوششیں کریں ، مثلاً گھر کی صفائی میں سب مل جل کر کام کریں۔ چھٹی والے دن سب مل کر کوئی چاٹ بنائیں اور مل کر اس کا لطف لیں۔ یا باہر کھانا کھانے کا پروگرام بنائیں۔
اس طرح آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنے کی ترتیب کو بامقصد بنائیں گے تو کچھ وقت بعد ہمیں خود اندازہ ہوگا کہ آپس میں ہم ایک دوسرے کے لئے جو گمان ( بدگمانی) رکھتے ہیں وہ اکثر و بیشتر بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم ہر بار خود کو صحیح تصور کرتے ہیں ۔ ہر انسان خوبی و خامی کا مالک ہے۔
(9) بچے محبت اور توجہ کے متلاشی ہوتے ہیں:. ان کو پیار سے سمجھائیں ۔ اکیلے میں ڈانٹیں ۔ سب کے سامنے سرزنش کریں گے تو یہ آپ کی غلطی ہوگی۔
(10) شخصیت کا برابر ہونا:. آپ کو بحیثیت سر پرست اس بات کو قبول کرنا ہوگا کہ اس دور کے بچے اقدار میں آپ کے برابر ہوسکتے ہیں لیکن ان کے انداز آپ سے مختلف ہی ہوں گے کیونکہ یہ دور ہی مختلف ہے۔
(11)نئی تبدیلیاں:. اس دور کی نئی تبدیلیوں کو ہم نے بھی اپنایا ہے اسی طرح بچے بھی آج کے تکنیکی دور کے پروردہ ہیں وہ ہم سے الگ بھی ہیں اور بعض میدانوں میں ہم سے آگے بھی ہیں۔ ان کی اس سبقت کو اپنانا ہوگا تاکہ وہ ہماری طاقت بنیں ورنہ تکنیکی معاملہ میں ہم ان سے کمزور ہی ہیں۔
(12) بچوں کو عملی نمونہ پیش کریں:. آپ جیسا بچوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ہی انہیں بن کر دکھائیں۔ وہ خود بخود آپ کی تقلید کریں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں