اسلام آباد(ڈیلی پوائنٹ)بجلی کی نگرانی فوج کے سپرد کر دی گئی .حکومت نے خسارے میں چلنے والی 5 پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے پاک فوج کے حاضر افسران کی سربراہی میں پرفارمنس مینجمنٹ یونٹس (پی ایم یوز) کے قیام کا فیصلہ کرلیا ہے۔
نگراں وزیر توانائی و پٹرولیم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ خسارے میں چلنے والی پانچ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں پاک فوج کے حاضر سروس بریگیڈیئر کی سربراہی میں پرفارمنس مینجمنٹ یونٹس (پی ایم یوز) کے قیام کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے ۔
بزنس ریکارڈ کے مطابق آج 9 جنوری کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں تیار کی گئی تجویز پرغور کیا جائے گا۔
آج نیوز کے مطابق واپڈا کی بندش کے بعد پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا کاروبار10 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (سوائے کراچی کے جو ایک نجی کمپنی کر رہی ہے) کو سونپ دیا گیا۔وزارت توانائی (پاور ڈویژن) کے تحت ان ڈسکوز میں چیف ایگزیکٹو آفیسرز (سی ای اوز) کے طور پر موزوں افراد کی تقرری حکومت کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔
ماضی میں سی ای او ز کے عہدے پُر کرنے کی ایسی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ نتیجتا بجلی کا شعبہ بنیادی طور پر موثر قیادت کے فقدان کی وجہ سے نااہلیوں کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں جون 2023 تک گردشی قرضہ 2.310 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ڈسکوز کی وصولیوں میں بھی 1.786 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ شعبہ غیر پائیدارہو گیا ہے۔
پاور ڈویژن کے مطابق مالی سال 2023-24 کے دوران ڈسکوز کو تقریبا 589 ارب روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے جس میں انڈر ریکوری اور نیپرا کی حد سے زیادہ نقصان شامل ہے۔
یہ کمپنیاں کارپوریٹائزیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں مزید نجکاری کے لئے بنائی گئی تھیں۔ تاہم بدانتظامی کی وجہ سے مزید اصلاحات کا عمل پٹڑی سے اتر چکا ہے اور نتیجتاً یہ ادارے اب قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔
پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے حکومت نے بجلی چوری اور نادہندگان سے وصولی کے خلاف مہم شروع کی ہے۔
تاہم خدشہ موجود ہے کہ ڈسکوز کی کمزور قیادت مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوسکتی ہے. خاص طور پر حیسکو، سیپکو، پیسکو اور کیسکو کو انتظامی صلاحیت کی شدید کمی کا سامنا ہے اور انہیں اس حوالے سے انتظامی مدد کی ضرورت ہے۔
4 اکتوبر 2023 کو ہونے والے ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، ضلعی انتظامیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل انسداد چوری ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نمایاں نقصان اٹھانے والے ڈسکوز کیسکو، پیسکو، سیپکو، میپکو اور حیسکو کو کے ساتھ وابستگی کا فیصلہ کیا گیا۔
پائلٹ پروجیکٹ ہیسکو کے ساتھ شروع ہوگا اور ہیسکو میں پائلٹ مداخلت کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد دیگر ڈسکوز میں بھی ایسا کیا جائے گا۔
وجوہات کی وضاحت کے بعد پاور ڈویژن نے کابینہ کی منظوری کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی ہیں: (1) ہر ڈسکو میں ایک پرفارمنس مینجمنٹ یونٹ قائم کیا جائے۔ پائلٹ کے طور پر پہلا پی ایم یو حیسکو میں قائم کیا جائے گا جس میں پی اے ایس، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسی کے افسران شامل ہوں گے جس کی سربراہی پاک فوج کے بی ایس 20 افسر کریں گے۔
یہ پرفارمنس منیجمنٹ (پی ایم یو) براہ راست سیکرٹری پاور ڈویژن کو رپورٹ کرے گا۔
وزارت دفاع ہر ڈسکو کے انتظام کو مضبوط بنانے کے لیے ٹیم اور متعلقہ عملے کے ساتھ پاک فوج کے ایک حاضر سروس بی ایس 20 افسر کو تعینات کر سکتی ہے۔ ابتدائی طور پر حیسکو کے لیے ایسی صرف ایک ٹیم کی ضرورت ہوگی۔
وزارت دفاع ہر ڈسکو میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ایک افسر تعینات کر سکتی ہے۔
انسداد چوری مہم میں پولیس حکام کے ساتھ کوآرڈینیشن کے لیے متعلقہ صوبائی پولیس حکام کی طرف سے ہر ڈسکو میں بی ایس 18 کے حاضر سروس پولیس افسر کو تعینات کیا جاسکتا ہے۔
نادرا/ آئی ایم پاس اور بینکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان ڈیفالٹر افراد کے پاسپورٹ جاری یا تجدید نہ کریں یا بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں، جن کی فہرستیں پاور ڈویژن پی ایم یو کی جانب سے فراہم کردہ ان پٹ کی بنیاد پر متعلقہ حکام کے ساتھ شیئر کرے گا۔
پاور ڈویژن نے مزید کہا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے گریڈ 17 کے افسران کو تمام ڈسکوز میں تعینات کیا گیا ہے۔ گریڈ 17 یا 18 کے ایف آئی اے افسران کو سب سے پہلے تین ڈسکوز (حیسکو، سیپکو اور پیسکو) سے منسلک کیا گیا تھا تاکہ چوری اور ریکوری مہم میں ڈسکوزملازمین کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ملازمین کے خلاف فوری کارروائی کی جا سکے۔
سیکریٹری خزانہ کے قریبی ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ فنانس ڈویژن نے پاور ڈویژن کی جانب سے خسارے میں چلنے والی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں سینئر فوجی افسران (بریگیڈیئرز) کی سربراہی میں پرفارمنس مینجمنٹ یونٹس (پی ایم یوز) کے قیام کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ڈسکوز کے اندر گورننس مزید خراب ہوگی۔
فنانس ڈویژن نے 10 نومبر 2023 کو وزارت توانائی (پاور ڈویژن) آفس میمورنڈم پر اپنے تبصرے میں کہا کہ وفاقی کابینہ کی سمری کے مسودے میں پی ایم یوز کے قیام کے حوالے سے تجویز کی توثیق نہیں کی گئی جس کی سربراہی پاک فوج کے بی ایس 20 افسر کریں گے اور جس میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران تعینات ہوں گے۔
فنانس ڈویژن نے اپنے تبصروں میں دلیل دی کہ چوری پر قابو پانا اور کارکردگی کا انتظام دو بالکل مختلف افعال ہیں، مجوزہ پی ایم یو کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) اور کلیدی کارکردگی انڈیکیٹرز (کے پی آئیز) کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
فنانس ڈویژن نے پاور ڈویژن سے ریمٹ پر تبصرہ کے لیے ٹی او آرز فراہم کرنے کا کہتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ، پی ایم یو کمپنی کا رسمی انتظام غیر متعلقہ بنا تے ہوئے ڈسکوز کے اندر گورننس کو مزید خراب کرے گا ۔ فنانس ڈویژن نے تجویز دی ہے کہ نئے یونٹ کا دائرہ سختی سے انسداد چوری اقدامات اوربلوں کی وصولی تک محدود ہونا چاہئیے۔
ذرائع نے فنانس ڈویژن کے حوالے سے مزید بتایا کہ اس تجویز سے ان کمپنیوں کو اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلے ہی خسارے میں ہیں۔