اسلام آباد(ڈیلی پوائنٹ )تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے عدالتی امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس لے لیا۔
یاد رہے کہ حکومت اس معاملے پر چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی پر مبنی ایک رکن انکوائری کمیشن تشکیل دے چکی ہے تاہم گزشتہ روز 300 سے زائد وکلا نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے پر از خود نوٹس لیں۔
وکلاء کا مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لیں جو عوامی مفادات کے متعلق ہے۔
ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس نے اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ پر موجود ججوں پر مشتمل 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا، 7 رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔
اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، یحییٰ خان آفریدی، جمال خان مندخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی لارجر بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ ججز کے خط کے معاملے کی سماعت بدھ کو ساڑھے 11 بجے کرے گا۔
واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کرنے والے کون تھے؟
اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔