اسلام آباد( ڈیلی پوائنٹ )لیفٹننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید کا شمار پاکستان کی تاریخ کے آئی ایس آئی کے طاقت ور ترین سربراہان میں ہوتا تھا۔ آئی ایس آئی کے ڈی جی بننے سے قبل وہ اسی ایجنسی میں ڈی جی سی کے انتہائی اہم اور بااثر عہدے پر فائز تھے۔
لیفٹننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ اس وقت عالمی منظرنامے پر نمایاں ہوئے جب 2021 میں افغانستان سے امریکی اور مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے زمام اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد وہ کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے فلمائے گئے۔
آئی ایس آئی کے دیگر سربراہان کے برعکس جنرل فیض حمید ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہے کیونکہ وہ تشہیر سے گریز نہیں کرتے تھے۔
انہیں سابق وزیراعظم عمران خان کے قریب سمجھا جاتا تھا، اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سے ان کے قریبی تعلق کو اس وقت سول اور ملٹری تعلقات میں تناؤ کی ایم وجہ خیال کیا جاتا تھا۔
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور بعدازاں کورٹ مارشل عمران خان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ اب انہیں مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ کہا جاتا تھا، اور اس بات کو میڈیا میں بھی بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا کہ عمران خان نومبر 2022 میں جنرل ( ر ) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کو اگلا آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے تھے۔
تاہم ایک وقت میں چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے مضبوط امیدوار رہنے والے جنرل ( ر ) فیض حمید نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ ان 6 جرنیلوں میں شامل تھے جن کے نام 2022 میں جی ایچ کیو نے آرمی چیف کے عہدے کے لیے بھیجے تھے۔
آرمی چیف کے بعد آئی ایس آئی چیف کو عام طور پر پاکستان میں سب سے طاقت ور فوجی افسر سمجھا جاتا ہے۔
فیض حمید کا دور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اچانک برطرفی کے بعد آیا کیونکہ مبینہ طور پر وہ ( جنرل عاصم منیر) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور قریبی ساتھی فرح گوگی کے کرپشن میں ملوث ہونے کے ثبوت سامنے لائے تھے۔
عمران خان نے، جن کی حکومت اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کردی گئی، دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کی ذمے دار فوج ہے، جبکہ فوج نے اس الزام کی تردید کی۔
عمران خان نے فوج کے خلاف بغاوت کی مہم چلائی اور مئی 2023 میں کرپشن کے الزام میں ان کی گرفتاری نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا جو پرتشدد ہو گیا اور پھر فوج کی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔
اس کے نتیجے میں عمران خان کی پارٹی کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کیا گیا جس نے فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی نشستیں حاصل کیں باوجود یہ کہ ان کے امیدواروں کو آزادانہ حیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔