لاہور(ڈیلی پوائنٹ )پاکستان کے حالات تبدیل ہوئے یا نہیں، تاہم گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان کا سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہو چکا ہے،بزرگ ووٹر کی جگہ اب اکثریت نوجوان ووٹرز نے لے لی ہے اور ان کے پاس تعداد بھی ایسی ویسی کہ کوئی بھی متوقع نتیجہ اور پلاننگ پل بھر میں زمین بوس کر سکتے ہیں ، اس کا انداز ہ صرف اسی بات سے لگا لیں گے ، 2 کروڑ سے زائد نوجوان اس بار پہلی بار حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔
2011سے 2024تک جس تیزی سے دنیا روایتی میڈیا سے ہٹ کر ڈیجٹیل ہوئی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی اسی عرصہ میں نوجوانوں کی تعداد بھی بتدریج بڑھی ہے اور وہ ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں یہ وہ ووٹرز ہیں جو سوشل میڈیا پر فوکس رکھتے ہیں ،کسی بھی چیز کو پلان کرنے ،انتظار میں پڑنے کے بجائے پل بھر میں عملی طور پر کام کرنے اور رزلٹ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،18سے 45برس کے اس ووٹر کا رویہ مصلحت پسند اور سست ہونے کے بجائے باغیانہ ہے،یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات میں یہ ووٹرز سب اندازے غلط ثابت کرنے کو تیار ہیں، آئندہ عام انتخابات میں نوجوان ووٹرز کا کلیدی کردار ہوگا۔
عام انتخابات کےلیے اہل 45فیصد سے زائد ووٹرز 35سال سے کم عمر کے ہیں، اس بار 18سے 35سال کے 5کروڑ 61لاکھ ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے، 36سے 45سال کے ووٹرز کی تعداد 2کروڑ 70لاکھ، 46سے 55سال کے ایک کروڑ 81لاکھ، 56سے 65سال کے ایک کروڑ 18لاکھ جبکہ 66سال سے اوپر کےایک کروڑ 20لاکھ ووٹرز ہیں،جہاں پاکستان بھر میں ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 12کروڑ 80لاکھ سے زائد ہوگئی ہے وہی ایک دہائی بعد پہلی بار مرد و خواتین ووٹرز کا فرق ایک کروڑ سے نیچے آگیا ہے، 6کروڑ 93لاکھ مرد ووٹرز (53.46فیصد) کے مقابلے میں تقریباً 5کروڑ 93لاکھ خواتین (13.46فیصد) ووٹرز رجسٹرڈ ہیں ۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ مرد و خواتین ووٹرز کا مجموعی فرق کے 99لاکھ 40ہزار ہے، پنجاب میں یہ فرق 50لاکھ سے زائد ہے، اس کے بعد سندھ میں 22لاکھ 40ہزار، خیبر پختونخوا میں 19لاکھ 60ہزار اور بلوچستان میں یہ فرق 6لاکھ 60ہزار ہے،پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 7کروڑ 32لاکھ ہے، جن میں 3کروڑ 91لاکھ (53.44فیصد) مرد اور تین کروڑ چالیس لاکھ (چھیالیس فیصد) خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ دوہزار سات آٹھ کے عام انتخابات کے وقت مرد و خواتین ووٹرز کے درمیان فرق ستانوے لاکھ تھا، دوہزارتیرہ میں یہ بڑھ کر ایک کروڑدس لاکھ ہوگیا، دوہزار پندرہ میں انتخابی فہرستوں کی نظرثانی کے بعد یہ فرق بڑھ کر ایک کروڑ سولہ لاکھ تک پہنچ گیا۔
2016کی انتخابی فہرستوں پر دوبارہ نظرثانی کے بعد یہ فرق بڑھ کر ایک کروڑ 31لاکھ ہو گیا، 2018میں عام انتخابات کے وقت یہ فرق ایک کروڑ 24لاکھ تھا، یہ فرق جولائی 2020میں ایک کروڑ 27لاکھ سے زائد تھا لیکن اسی سال اکتوبر میں کم ہوکر کر ایک کروڑ 24لاکھ رہ گیا، نومبر 2021میں یہ فرق ایک کروڑ18لاکھ ہوگیا،مئی 2022میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع ووٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق مرد و خواتین ووٹرز کا فرق ایک کروڑ 13 لاکھ تھا۔انتخابی فہرستوں میں رواں برس جون میں نظر ثانی کی گئی تھی، جس سے ووٹرز کی مجموعی تعداد 12کروڑ40لاکھ سے کم ہو کر 12کروڑ رہ گئی، یہ کمی اس انکشاف کے بعد کی گئی تھی کہ فہرستوں میں رجسٹرڈ کم از کم 40لاکھ ووٹرز انتقال کر گئے ہیں،اب فرق واضح ہے ،کون سا ووٹر کیا گیم تبدیل کرسکتا ہے،اس وقت خواتین،نوجوانوں کی اکثریت کس کے ساتھ ہے؟اور وہ کیا چاہتے ہیں یہ بھی سب واضح ہے۔