اسلام آباد(ڈیلی پوائنٹ )ہر سال 93 کروڑ ٹن خوراک کچرا کنڈی کی نذر ہو جاتی ہے۔بچا ہوا یا باسی کھانا ترجیحات میں شامل نہیں، غریب ملکوں کے 3 ارب افراد دو وقت پیٹ بھر نہیں کھا پاتے
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر سال دنیا بھر میں کم و بیش 93 کروڑ ٹن خوراک کچرا کنڈی میں چلی کاتی ہے؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دنیا بھر میں (بشمول ترقی یافتہ ممالک) لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا پکاتے یا خریدتے ہیں اور اسے ڈھنگ سے استعمال بھی نہیں کرتے۔
دنیا بھر میں خوراک کا ضیاع ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ جو لوگ کھانے پینے کی اشیا کو ضائع نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں وہ بھی ضیاع روکنے کے حوالے سے زیادہ کامیاب نہیں۔
کھانے پینے کی اشیا کے ضیاع پر نظر رکھنے والے رضاکار اس تصور کو بے بنیادی قرار دیتے ہیں کہ صرف تہواروں کے موقع پر یا مختلف گھریلو اور سرکاری و نجی تقریبات میں کھانا بہت بڑے ضائع ہوتا ہے۔ لوگ یومیہ بنیاد پر بھی کھانے پینے کی اشیا کا بڑا حصہ ضائع کرتے نہیں تھکتے۔
استعمال شدہ یعنی باسی کھانا ڈھنگ سے دوبارہ استعمال کرنا بھی لوگوں کی عادات میں حوصلہ افزا حد تک شامل نہیں۔ رات کا بچا ہوا کھانا لوگ بالعموم نہیں کھاتے اور انڈے، بریڈ اور مکھن پر مشتمل ناشتہ کرنے کو ترجیح دیتےہیں۔ اس کے نتیجے میں کھانا بھی ضائع ہوتا ہے اور بجٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔
یو این ای پی فوڈ ویسٹ انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال جو 93 کروڑ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے اس کا 61 فیصد گھروں سے آتا ہے۔ خوراک کا اتنے بڑے پیمانے پر ضیاع اس لیے بھی افسوس ناک ہے کہ دنیا بھر انتہائی پس ماندہ ممالک میں کم و بیش 3 ارب افراد دو وقت کی روٹی کا بھی ڈھنگ سے اہتمام نہیں کر پاتے۔ بچا ہوا یا ضائع ہو جانے والا کھانا ان محروم اور مفلوک الحال لوگوں تک پہنچانا ممکن نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کا ضیاع دراصل زمین، زر اور محنت کا ضیاع ہے۔ خوراک کے لیے بہت کچھ اگایا جاتا ہے اور مویشی بھی پالے جاتے ہیں۔ اس عمل میں یہ تینوں عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔